کشتواڑ بھارتی زیر انتظام کشمیر — مروا وادی میں کچھ سڑکیں ہیں، اور جو موجود ہیں وہ موسم سرما کے دوران، برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ اکثر حصّہ میں بجلی بالکل نہیں ہے۔ برفانی چیتے، پہاڑی بکرے اور دیگر قریب الختم نسل والے جانور اونچی چوٹیوں میں پناہ لیتے ہیں، جبکہ برّاعظم کی کچھ طاقتور ترین دریا انہی سرسبزو شاداب وادیوں سے پوری تیزی سے گزرتی ہیں۔
یہ علاقہ دوافتادہ لگتا ہے، یہ خالی بالکل نہیں ہے۔ دریائے ماروسودر— بھارت سے نکل کر پاکستان کے اندر بہنے والا دریائے چناب کا ایک معاون دریا، جو دونوں کناروں پر مکانات سے گھیرا ہوا ہے۔ کھیتوں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت جلد کاشتکاری کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ شوقیہ کرکٹ کے کھیل، اپنی کارکردگی مظاہرہ کرتے ہوئے نوجوان، جنہیں دیہاتی بوڑھے اور بچے ناظرین کے طور پر بڑےی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ عورتیں پانی سے بھرے ہوئے بڑے برتن اٹھائی ہوئی ہے اور مرد بھیڑوں کے ریوڑ کو پہاڑوں کے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف چرا رہے ہیں۔
یہ دیہات کشمیر کے دوسرے علاقوں میں لوگوں کی زندگی میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی لانے والی، سیاسی بد نظمی سے کافی پہلے سے یہاں پر نسل در نسل آباد ہیں انقلاب سےکافی پہلے سے موجود ہے، واضح رہے کہ کشمیر کا یہ علاقہ بھارت کے زیر انتظام ہے، لیکن اس پر پاکستان کا دعویٰ ہے۔
لیکن یہ عظیم الشان ہائیڈرو پاور پروجیکٹ درجن سے زائد ان چھوٹی چھوٹی آبادیوں کو غرقاب کر سکتا ہے۔ واضح رہے یہ تعداد بھارتی حکومت کے کہنے سے کہیں زیادہ ہے۔
پکل نامی ایک چھوٹے سے دیہات کے قریب، اس بہت بڑے ڈیم پر تعمیر کا اسی سال سے آغاز ہوگا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے طویل ترین ڈیموں میں سے ایک ہوگا۔ 24,589کروڑ روپیوں (3.8 بلین ڈالر) مالیت سے تیار کیے جانے والے برسر ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ میں یہ ڈیم بھی شامل ہے، جوپانی کو اس کے قدرتی کناروں سے ڈھکیل کر کھیتوں اور گھروں میں داخل کرتے ہوئے اس کی تقریباً پوری لمبائی کو چوڑا کرے گا۔ اگر یہ تمام کام منصوبہ کے مطابق تکمیل پائے تو اس ڈیم میں 800 میگا وٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی، جو امریکہ میں واقع ہوور ڈیم کی 2080 میگا واٹ کی صلاحیت کے ایک تہائی حصّے سے تھوڑی زیادہ ہے۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ صرف 1,442 ہیکٹر (3,565ایکڑ ) رقبہ کے زیر آب آنے والے علاقہ میں واقع 1,600 سے زیادہ لوگ مکان سے محروم ہونگے۔ لیکن مروا کی وادی میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ متاثرین کی حقیقی تعداد 36,000 کے لگ بھگ ہے۔
حکومت نے زمین کے مالکان کو رقمی شکل میں معاوضہ دینے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس رقم سے انہیں اپنے نئے گھر بنانے کے لیے زمین نہیں ملے گی۔ 2018 کے اوائل میں سرکاری حکام نے بتایا ہے کہ 211.4 کروڑ روپیوں ($32.7 ملین ڈالر) کا ایک فنڈ موجود ہے، جسے معاوضہ کی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
برسر پروجیکٹ جسے پہلی بار 2000 میں منظوری ملی تھی، لیکن حالیہ دنوں میں اس میں تیزی پیدا ہوئی ہے، جس نے مروا وادی لوگوں میں شدید برہمی پیدا کی ہے۔ لوگوں کو انتباہ دیا گیا ہے کہ انہیں منتقل ہونا پڑے گا، لیکن کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس زمین کے لیے، جس نے بقول ان کے ان کی زندگی کو ممکن بنایا ہے چھوڑنے کے بجائے، اپنے گھروں کے ساتھ پانی میں غرق ہو کر مرنے کے لیے تیار ہیں۔
مقامی حکومت کی سیٹ، کشتواڑ میں سیکڑوں لوگوں نے احتجاج میں شرکت کرتے ہوئے ضلعی صدر مقام کے سامنے مارچ کیا اور “انصاف!” کے نعرے بلند کیے۔
ڈیم کی جگہ سے 12 کلومیٹر دوری پر واقع 80 دچن نامی کنال (10 ایکڑ) زمین کے مالک کاشتکار غلام احمد مگرے کا کہنا ہے کہ “میں اپنی زمین کو پانی میں بہہ کر چلے جانے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا”۔ “یہ ایک خودکشی ہے۔”
سرکاری ہائیڈر پاور کمپنی، این ایچ پی سی کی طرف سے جاری کردہ 2017 کے ماحولیاتی اثرات کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ زیر آب آنے والے علاقہ میں موجود گھروں کی وجہ سے 1,673 لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔
گلوبل پریس جرنل نے سیٹلائیٹ تصاویر استعمال کرتے ہوئے زیر آب آنے والے علاقوں میں واقع آبادیوں کی قطعی تعداد معلوم کی اور اس بات کا پتہ لگایا کہ وہاں پر پر ایک درجن سے زائد علیحدہ آباد علاقے موجود ہیں۔ جی پی جے کے ایک رپورٹر نے مروا وادی کا دورہ کرتے ہوئے، مقامی لوگوں کے ذریعہ اس بات کی توثیق کی کہ زیر آب آنے والے علاقہ میں بھارتی حکومت کے اندازے سے کئی زیادہ گھر اس کی زد میں آئیں گے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہےکہ اس منصوبہ کے نتیجہ میں نہ صرف دور دراز کے مقامات میں روشنی آئے گی، بلکہ اس ڈیم سے مروا وادی کے زیر آب نہ ہونے والے علاقوں میں بھی بجلی آئے گی۔ اور اس علاقہ میں، جہاں پر روزگار کے اختیارات زیادہ تر زراعت تک محدود ہیں، ڈیم میں اور اس پروجیکٹ کے دیگر قریبی مقامات میں کئی ایک ملازمتیں دستیاب ہونگی۔
لیکن کئی مقامی لوگ جس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، اس کے مطابق ان کا خیال ہے کہ وہ اس بھارتی حکومت پر بھروسہ نہیں کر سکتے، جس نے انہیں کئی دہائیوں قبل نظر انداز کر دیا تھا۔ زیر آب آنے والے علاقہ کے لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ انہیں معاوضہ دیا جائے گا، لیکن وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ انہیں دی جانے والی رقم کسی دوسری جگہ زمین خریدنے کے لیے کافی ہوگی۔ مزید یہ کہ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس ڈیم کے نتیجہ میں ان کے دیہات میں بجلی کے تار لگوائے جائیں گے یا یہ کہ مقامی لوگوں کی طرف سے ڈیم کے مقام پر کام کے لیے درخواست دینے پر انہیں کام پر رکھا جائے گا۔
مروا وادی کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ انہتائی تکلیف دہ بات کے کہ حکومت ایک سانس میں اس قسم کے فوائد کے وعدے کرتی ہے، اور پھر اس کے بعد اعلان کرتی ہے کہ ان کے گھر تباہ کیے جائیں گے۔
اس وادی کے پیدائشی باشندے 75 سالہ امیراللہ خان نے سوال اُٹھایا ہے کہ “اچانک ایسا کیوں ہوا؟” “ایسا کیوں نہیں ہے کہ اتنے سالوں کے دوران، انہوں نے ہمیں یاد تک نہیں کیا؟”
کشمیر کا پورا علاقہ کئی دہائیوں سے بد امنی اور بے اطمینانی کا شکار ہے۔ کئی کشمیری عوام ہندوستانی حکومت کے اقتدار کو مسترد کرتے ہیں۔ آبادی والے علاقوں بشمول کشمیر کے بنیادی شہری مرکز سرینگر میں احتجاج معمول کا ایک حصّہ ہے۔ بھارتی فوج نے لوگوں کو پولیس چیک پوائنٹس کی تعمیل پر مجبور کرنے، کرفیو، انٹرنیٹ بند کرنے اور دیگر طریقوں سے ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔
لیکن مروا وادی کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں پر انٹرنیٹ یا سیل فون کی کوئی خدمات نہیں ہیں کہ اسے بند کردیا جائے۔ وہاں پر بہت ہی کم سڑکیں ہیں، جس کا مطلب حفاظت کے لیے نقل و حمل کے انفراسکٹریکچر کے ذرائع کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ اکثر دیہی کشمیری علاقوں کی طرح ، مقامی سکولوں کو حکومت کی یا تو بہت کم امداد ملتی ہے یا پھر بالکل نہیں۔ ( ہماری کہانی یہاں پڑھیں۔)
20 سالہ طالبہ مبینہ اختر نے کہا کہ ” ہم پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے انہیں کوئی جانتا تک نہیں۔”
برسر ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کا تجزیہ کرنے والے اثرات کے مطالعہ میں مروا وادی کے لوگوں کا بالکل مختصر سا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 2017 کے ماحولیاتی اثرات کے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ ایک “مکمل طور پر دور افتادہ اور الگ تھلگ علاقہ ” میں تجویز کیا گیا ہے۔ اسی مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ “مروا وادی ایک طویل مدت سے تشدد سے متاثرہ ہے۔”
بھارتی حکومت کی ایک تاریخ رہی ہے کہ وہ ہائیڈر پاور پروجیکٹس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے زمین کے مالکان کو زبردستی خالی کرواتی ہے۔ 2013 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پچھلے 50 سالوں میں اس ملک میں تقریباً 3,300 ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر منصوبوں میں جملہ 3.3 کروڑ لوگوں کی بڑے پیمانے پر، زبردستی، بے دخلی کروائی گئی۔
برسر ڈیم مکمل ہونے کے بعد 265 میٹر طویل ہوگا، جو کہ بھارت کا بلند ترین ڈیم اور دنیا کے بلند ترین ڈیموں میں سے ایک ہوگا۔
برسر پروجیکٹ ان چند مٹھی بھر منصوبوں میں سے ایک ہے جنہیں بھارتی حکومت کے مطابق ترجیحی طور پر مکمل کیا جائے گا۔ لیکن پاکستان نے کشمیر میں بھارت کے ہائیڈرو منصوبوں کو ملتوی کرانے مطالبہ کیا ہے، اس کو خوف ہے کہ اس کے نتیجہ میں متعلقہ دریا خشک ہو جائیں گے، اور پاکستان پانی کے اہم وسائل سے محروم ہو جائے گا۔ یہ دو ممالک 1960
کے ‘سندھ طاس معاہدہ’ کے دو فریق ہیں، جس میں ان دونوں ممالک میں بہنے والی دریاؤں کے پانی تک مشترکہ رسائی پر مذاکرات کیے گئے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اگست 2017 میں اس وقت اضافہ دیکھا گیا جب اس معاہدہ کو طئے کروانے والے عالمی بینک نے ایک بیان جاری کیا کہ اس معاہدہ کے تحت بھارت کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ “وہ ان ندیوں میں ہائیڈرو الکٹروک پاور کی سہولیات تعمیر کرےـ” عالمی بینک ان منصوبوں پر موجود تنازعات کو حل کرنے کے لیے ان دو ممالک کے درمیان مذکرات کی میزبانی کرتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے، مروا وادی کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کی غلط طور پر نمائندگی کی گئی ہے اور انہیں بھلا دیا گیا ہے۔
طالبہ اختر نے کہا کہ “ہم نے سنا ہے کہ اخباروں میں لکھا گیا ہے کہ یہاں کے 90 فیصد مقامی لوگ ڈیم کی تعمیر سے متفق ہیں، جو کہ صحیح نہیں ہے۔ ”
در حقیقت، اکثر دیہی عوام، اس ڈیم کی شدّت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں۔ حتی کہ جو لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ گھروں اور کاشتکاری کی زمینات کی تباہی کو بچانے کے لیے منصوبہ میں تبدیلی کی جانی چاہیے۔
سالب نے اپنی پوری زندگی اس چھوٹے سے دیہات، دھیرنا میں گزاری ہے۔ دھیرنا کا حکومت کے کسی بھی ماحولیاتی اثرات کے مطالعات میں تذکرہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن سالب کا کہنا ہے کہ یہ زیر آب آنے والے علاقہ میں ہے۔ جب ڈیم کی تعمیر مکمل ہوگی تو یہ دیہات بہہ جائے گا۔
سالب کا کہنا ہے کہ اس نے برسوں پہلے یہ سوچا تھا کہ اس کی جس جگہ پیدائش ہوئی ہے اسی علاقہ میں اس کی موت ہوگی۔ اب اس کا کہنا ہے کہ اس کی موت اس کے اپنے خیال سے کافی زیادہ تیزی سے آئے گی۔
اگر ڈیم کی تعمیر ہوگئی تو ہم کہیں نہیں جا سکیں گے۔ “یہ ہمیں ہلاک کرے گا۔”
محمد ابوہریرہ اکرمی، جی پی جے، نے انٹرویو کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔